طالبان آفس کی تجویز کے بعد عمران خان کا پہلا انٹرویو
دیکھیں آپ یا امن چاہتے ہیں یا ملٹری آپریشن تو ملٹری آپریشن تو ہو رہے ہیں ، اگر امن چاہتے ہیں تو بات چیت اور پھر سیز فائر ، دفتر کہیں بھی دے دیں ساؤتھ وزیرستان میں دے دیں ، تاکہ آپ کو اخبارات اور ٹی وی پروگرام کے ذریعے پتا نہ چلے کہ کیا ہو رہا ہے ، دنیا جب ٹاک کرتی ہے تو کوئی سٹرکچر ہوتا ہے . آپ نے کہا کہ ہمیں کے پی کے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے تو فاٹا کے پی کے کے اندر نہیں آتا ، کے پی کے کے تین طرف فاٹا ہے تو وہاں سے آنا اور اٹیک کر کے جانا ان کے لئے آسان ہے
حکومت نے آئی ایم ایف سے ڈیل کی تھی آئی ایم ایف نے پیسے واپس کرنے کے لئے کچھ شرائط رکھی تھیں کہ پیسے کیسے واپس آئیں گے ایک تو تھا کہ روپیہ گرے گا اور روپے گرنے سے ملک میں جو تباہی آئے گی جو مہنگائی ہو گی اور قرض الگ بڑھے گا اگر آپ کو پیسا اکٹھا کرنے کے لئے قیمتیں ہی بڑھانی ہیں تو اس کے لئے فنانس منسٹر کی کیا ضرورت ہے وہ تو میں بھی کر سکتا ہوں،
کیا یہ انصاف ہے؟ کہ ایک طرف تو آپ غریب کو مہنگائی کے سمندر میں ڈوبا دو اور دوسری طرف گورنر ہاؤس ، سترہ سو ملازم ایک آدمی کے لئے ، اتنے زیادہ ان کے خرچے ، مری میں گورنر ہاؤس ، نتھیا گلی میں گورنر ہاؤس اور پشاور میں گورنر ہاؤس ، بجائے عوام ان کے ٹیکس پر چلے یہ عوام کے ٹیکس پر چل رہے ہیں ، ہم نے تو کے پی کے میں ایک قانون پاس کیا ہے کہ ان گورنر ہاؤسز کو کمرشل کرنے کا ،
دیکھیں آپ یا امن چاہتے ہیں یا ملٹری آپریشن تو ملٹری آپریشن تو ہو رہے ہیں ، اگر امن چاہتے ہیں تو بات چیت اور پھر سیز فائر ، دفتر کہیں بھی دے دیں ساؤتھ وزیرستان میں دے دیں ، تاکہ آپ کو اخبارات اور ٹی وی پروگرام کے ذریعے پتا نہ چلے کہ کیا ہو رہا ہے ، دنیا جب ٹاک کرتی ہے تو کوئی سٹرکچر ہوتا ہے . آپ نے کہا کہ ہمیں کے پی کے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے تو فاٹا کے پی کے کے اندر نہیں آتا ، کے پی کے کے تین طرف فاٹا ہے تو وہاں سے آنا اور اٹیک کر کے جانا ان کے لئے آسان ہے
حکومت نے آئی ایم ایف سے ڈیل کی تھی آئی ایم ایف نے پیسے واپس کرنے کے لئے کچھ شرائط رکھی تھیں کہ پیسے کیسے واپس آئیں گے ایک تو تھا کہ روپیہ گرے گا اور روپے گرنے سے ملک میں جو تباہی آئے گی جو مہنگائی ہو گی اور قرض الگ بڑھے گا اگر آپ کو پیسا اکٹھا کرنے کے لئے قیمتیں ہی بڑھانی ہیں تو اس کے لئے فنانس منسٹر کی کیا ضرورت ہے وہ تو میں بھی کر سکتا ہوں،
کیا یہ انصاف ہے؟ کہ ایک طرف تو آپ غریب کو مہنگائی کے سمندر میں ڈوبا دو اور دوسری طرف گورنر ہاؤس ، سترہ سو ملازم ایک آدمی کے لئے ، اتنے زیادہ ان کے خرچے ، مری میں گورنر ہاؤس ، نتھیا گلی میں گورنر ہاؤس اور پشاور میں گورنر ہاؤس ، بجائے عوام ان کے ٹیکس پر چلے یہ عوام کے ٹیکس پر چل رہے ہیں ، ہم نے تو کے پی کے میں ایک قانون پاس کیا ہے کہ ان گورنر ہاؤسز کو کمرشل کرنے کا ،
0 comments:
Post a Comment